واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت شیخ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی

رحمتہ اللہ علیہ

           آپ کا اسم گرامی حضرت شیخ نصیرالدین محمود رحمتہ اللہ علیہ  تھا ۔آپ کے والد کا نام سید یحیی تھا۔آپ کی پیدائش اودھ میں ہوئی۔ دوسرے بزرگوں کی طرح  آپ کو سماع سے دلچسپی نہیں تھی۔ عبادت ، ریاضت کی طرف توجہ زیادہ تھی۔ سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔ آپ نے نہ صرف دہلی میں اشاعت اسلام کا کام سرانجام دیا بلکہ اپنے خلفا کودوسرے مقامات پر بھی تبلیغ کے واسطے روانہ کیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ کی عمر ابھی نو سال ہھ تھی کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔آپ کی والدہ    ماجدہ جو خود بھی ایک عارفہ تھیں ۔آپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا عبدالکریم شیر وانی سے حاصل کی ان کی وفات کے بعد مولانا افتخار گیلانی سے کتابیں پڑھیں۔چالیس سال کی عمر میں آپ اودھ سے  دہلی آگئے۔ان دنوں حضرت شیخ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ  سلسلہ چشتیہ کے سلوک میں سرگرم تربیت تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  بھی  صبح شام  ان کی مجالس میں حاضر ہونے لگے۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  نے ایک بالا خانہ تعمیر کروایا ہوا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  اکثر اسی میں مشغول عبادت رہتے تھے۔ اس خلوت کدے میں حضرت خواجہ نصیرالدین رحمتہ اللہ علیہ  کے علاوہ کسی کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ انہی ایام میں حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی خصوصی تربیت کی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو چراغ دہلی کے خطاب سے نوازا۔ حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  دن رات اپنے پیرومرشد کی خدمت میں مصروف رہتے۔

ایک بار خواجہ بہاؤالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ  کے چند مرید آئے تو انہوں نے اسی خلوت کدے میں رات گزارنے کا اصرار کیا۔ انہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی وجہ سے وہاں رہنے کی اجازت مل گئی۔ صبح ہوئی تو ایک درویش دریا پر جانکلا اپنے کپڑے اتار کر کنارے پرر کھے اور خود غوطہ زن ہوگیا۔اس وقت  ایک بدبخت وہاں آیا اور اس درویش کے کپڑے لےکر بھاگ گیا۔ اب درویش کپڑوں کے بغیر تھا اس لئے پانی سے باہر نہیں آسکتا تھا۔ اس لیے اس نے دریا کے پانی سے ہی آوازیں دینا شروع کردیں۔ حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  نے اپنے کپڑے اتار کر اسے دئیے اور کہا اب خاموشی سے باہر آجاؤ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مقصد یہ تھا کہ درویش کی باتوں سے حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ  کی عبادت میں خلل نہ آئے۔ مگر حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  یہ تمام منظر نور باطن سے دیکھ رہے تھے۔ چاشت کی نماز کے بعد خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  نے حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کو بلایا اور بڑی مہربانی فرمائی اور اپنی خلعت خاص مرحمت فرمائی۔

عمیرثمرقندی اور علی قندوزی کا سلطان محمد تغلق پر بڑا اثرورسوخ تھا۔ یہ دونوں مشائخ کے دشمن تھے۔ ان دونوں نے سلطان محمد تغلق کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کو حراست میں لے لینا چاہئے۔ چنانچہ سلطان نے دعوت کے بہانے حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کو بلایا اور کھانے تمام سونے اور چاندی کے برتنوں میں سجا کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  نے برتنوں میں کھانا کھایا تو شرعی طور پر محاسبہ کیا جائے گا اور اگر انکار کریں گے تو ان پر توہین سلطان کا الزام لگادیں گے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو کشف کے ذریعے ان کے منصوبے کا پتا چل گیا چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے  تھوڑا سا کھانا اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھا پھر وہاں سے لقمہ اٹھا  اٹھا کر کھانے لگے۔

یہ دیکھ کر  آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے مخالفین اور حاسد سخت شرمندہ ہوئے۔ بعد میں  سلطان نے عرض کی کہ حضور مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا بادشاہ کی طبیعت میں درندوں کی خصلتیں بڑھ گئی ہیں اور درویشوں کے خلاف حسد کی قوت زیادہ ہوگئی ہے انہیں مزاج اور دل سے دور کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بادشاہ نے ایک تھیلی میں روپے اور ریشم کے کپڑے پیش کیے لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے ان دونوں چیزوں کی طرف توجہ نہ فرمائی اور واپس جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران سلطان تغلق کا ایک وزیر خواجہ نظام الدین  اٹھا اور دونوں چیزیں اٹھاکر خدام شیخ کی حواکے کردیں اور اپنے رومال سے حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کے جوتے صاف کیے اور حضرت کو چھڑنے دروازے تک آیا۔

جب نظام الدین واپس آیا تو سلطان تغلق سخت خفا ہوااپنی تلوار نکالی اور کہنے لگا کہ میرے سامنے تم نے عطیہ سلطانی کو کیوں ہاتھ سے اٹھایا اور میرے سامنے حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کے پاپوش مبارک کیوں جھاڑے۔ نظام الدین نے جواب دیا کہ میں خاندان خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  کا غلام ہوں ان کے جوتے میرے سر کا تاج ہیں۔ اگر آپ غصے میں ہیں تو مجھے قتل کردیں۔ میری یہ جان بھی حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کے قدموں پر قربان ہوگی۔ سلطان کو غصہ تو بہت آیا مگر بوجہ توجہ حضرت کے کچھ نہ کرسکا اور تلوار نیچے رکھ دی۔

ایک دن نماز ظہر کے بعد حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  اپنے حجرہ خاص میں مراقبے میں سر جھکائے بیٹھے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص جس کا نا م قلندر ترابی تھا حجرے میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ آج آپ رحمتہ اللہ علیہ  اکیلے ہیں اور مراقبہ میں مستغرق ہیں وہ بلا خوف و خطر آگے بڑھا اور بگل سے ایک چھرا نکالا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  پر حملہ کردیا۔ اس نے اس چھرے سے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو گیارہ زخم لگائے۔ جب اسے تسلی ہوگئی کہ حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  ہلاک ہوچکے ہیں  تو وہ باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ شخص کئی برسوں سے حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  کے خلاف آتش حسد میں مبتلا تھا۔  حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  محویت کے عالم میں اپنی جسمانی حالت کا اندازہ نہ کرسکے اور حجرے سے باہر نکل آئے۔ جب لوگوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو زخمی حالت میں دیکھا تو دوڑ کر اس شخص قلندر ترابی کو پکڑ لیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے عزیز اس کی بوٹی بوٹی کرنا چاہتے تھے مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے روک دیا اور اسے معاف کردیا اس واقعہ کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  تندرست ہوگئے اور تین سال تک اس کائنات میں موجود رہے۔

 حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  ۱۸ رمضان المبارک ۷۵۲ ہجری یا ۷۵۷ ہجری میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ بوقت رخصت حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ  نے نصیحت فرمائی تھی کہ مجھے دفن کرتے وقت  حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ  کا خرقہ مبارک میرے سینے پر رکھ دیا جائے میرے پیرومرشد کا عصا میرے پہلو میں رکھ دیا جائے۔ حضرت شیخ کی تسبیح میری شہادت کی انگلی پر رکھی جائے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے پاپوش مبارک میرے بغل میں رکھے جائیں۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے خدام نے ایسا ہی کیا۔

آپ کے مشہور خلیفہ حضرت  گیسو دراز  اور  حضرت  مخدوم  جہانیاں  جہاں  گشت  تھے۔